بلوچستان کا تخت نشین کون ہوگا؟

  • July 31, 2018, 11:32 am
  • Political News
  • 483 Views

پورے ملک میں الیکشن کے بعد بلوچستان کے رزلٹ کا سب کو بے چینی سے انتطار تھا جہاں اس بار اسمبلی میں کچھ نئے چہرے بھی آ گئے ہیں۔ بلوچستان کے عوام نے جمہوری سفر میں‌ اپنے حصے کا لہو بطور خراج 25 جولائی کو پیش کیا۔ بلوچستان میں انتخابات کا آغاز نہایت اندوہناک خونی واقعہ سے ہوا، کوئٹہ کے خودکش حملے سمیت بلوچستان بھر میں‌ پولنگ اسٹیشنز پر حملوں کے درجن بھر واقعات پیش آئے جن میں چالیس انسانی جانیں گئیں؛ لیکن اس سب کے باوجود بلوچستان کے باہمت عوام نے اپنا ووٹ کاسٹ کیا اور عوامی نمائندوں کو اسمبلی تک پہنچایا۔

بلوچستان اسمبلی میں وہ لوگ اس بار بھی آئیں گے جو کئی سالوں سے صوبائی اسمبلی کی نشستیں جیتتے آرہے ہیں، جن میں صالح محمد بھوتانی لسبیلہ حب دریجی کی نشست سے، سردار اختر جان مینگل وڈھ کی نشست سے، قدوس بزنجو آواران سے، جام کمال لسبیلہ سے، سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثنااللہ زہری ایک مرتبہ پھر بلوچستان اسمبلی میں پانچ سال گزارنے آ رہے ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ جان جمالی بھی جعفر آباد سے منتخب ہوئے، وہ ڈپٹی چئیرمین سینٹ بھی رہ چکے ہیں۔ جبکہ اس بار مگسی خاندان سے طارق مگسی بلوچستان اسمبلی میں براجمان ہوں گے جبکہ سردار یار محمد رند بھی بلوچستان اسمبلی میں پہنچ گئے ہیں۔

25 جولائی کو پورے ملک کی طرح بلوچستان کے بھی الیکشن مکمل ہوئے، پھر رات کو یہ خبر آئی کہ اس عام انتخابات میں بلوچستان کے بڑے بڑے برج الٹ گئے جن میں سابق وزرا جعفر مندوخیل، سرفراز بگٹی، امان اللہ نوتیزئی، عبدالکریم نوشیروانی، نواب ایاز جوگیزئی، راحت فائق جمالی، در محمد ناصر، عبدالرحیم زیارتوال، چنگیز مری اور مجیب الرحمان محمد حسنی شامل ہیں۔ جبکہ گزشتہ انتخابات میں حکومت کرنے والی نیشنل پارٹی صوبائی و قومی اسمبلی کی ایک بھی نشست نہیں بچا سکی اور پارلیمنٹ سے مکمل طور پر باہر ہوگئی۔ جو پارلیمنٹ میں پہنچے ان میں سے کون کون وزیر بنیں گے اور کون وزیر اعلیٰ بنے گا، یہ فی الحال کوئی نہیں جانتا۔ جس طرح امیتابھ بچن کے مشہور پروگرام کا عنوان ہے ’’کون بنے گا کروڑ پتی‘‘، اسی طرح بلوچستان میں یہ بھی جملہ گردش کر رہا ہے کہ ’’کون بنے گا وزیراعلیٰ‘‘۔

بلوچستان اسمبلی کے نومنتخب ممبران کے نام درج زیل ہیں، مگر ان شخصیات میں سے کون کون وزیر بنے گا اور کون وزیر اعلیٰ، یہ ابھی کوئی نہیں جانتا۔

پی بی 1، موسیٰ خیل / شرانی: ایم ایم اے کے حاجی محمد حسن
پی بی 2، ژوب: آزاد امیدار مٹھا خان کاکڑ
پی بی 3 قلعہ سیف اللہ: ایم ایم اے کے مولانا نوراللہ
پی بی 4، لورالائی: بی اے پی کے محمد خان طور اوتمانخیل
پی بی 5، دُکی: آزاد امیدوار سردار مسعود لونی
پی بی، 6، زیارت / ہرنائی: بی اے پی کے نور محمد دمڑ
پی بی 7، سبی لہڑی: بی اے پی کے سردار سرفراز چاکر ڈومکی
پی بی 8، بارکھان: آزاد امیدوار سردار عبدالرحمان کھیتران
پی بی 9، کوہلو: پی ٹی آئی کے میر نصیب
پی بی 10، ڈیرہ بگٹی: جے ڈبلیو پی کے گہرام بگٹی
پی بی 11، نصیرآباد ون: بی اے پی کے میر سکندر عمرانی
پی بی 12، نصیرآباد ٹو: بی اے پی کے محمد خان لہڑی
پی بی 13، جعفرآباد ون: پی ٹی آئی کے عمر خان جمالی
پی بی 14، جعفرآباد ٹو: بی اے پی کے میر جان محمد خان
پی بی 15، صحبت پور: بی اے پی کے سلیم احمد کھوسہ
پی بی 16، جھل مگسی: بی اے پی نواب زادہ طارق مگسی
پی بی 17، کچھی: پی ٹی آئی کے سردار یار محمد رند،
پی بی 18، پشین ون: ایم ایم اے کے مولانا عبدالواحد صدیقی
پی بی 19، پشین ٹو: ایم ایم اے کے اصغر علی ترین پہ
پی بی 20، پشین تھری: ایم ایم اے کے فضل آغا پہلے
پی بی 21، قلعہ عبداللہ ون: اے این پی کے انجینئر زمرک اچکزئی،
پی بی 22، قلعہ عبداللہ ٹو: ایم ایم اے کے محمد نواز خان،
پی بی 23، قلعہ عبداللہ تھری: اے این پی کے اصغر خان اچکزئی،
پی بی 24، کوئٹہ ون: اے این پی کے ملک نعیم بازئی
پی بی 25، کوئٹہ ٹو: ایم ایم اے کے ملک سکندر خان ایڈووکیٹ
پی بی 26، کوئٹہ تھری: ایچ ڈی پی کے احمد علی کوہزاد
پی بی 27، کوئٹہ فور: ایچ ڈی پی کے عبدالخالق ہزارہ
پی بی 28، کوئٹہ فائیو: پی ٹی آئی کے محمد مبین خلجی
پی بی 29، کوئٹہ سکس: بی این پی کے اختر حسین لانگو
پی بی 30، کوئٹہ سیون: بی این پی کے احمد نواز بلوچ
پی بی 31، کوئٹہ ایٹ: پشتونخوامیپ کے نصراللہ زیرے
پی بی 32، کوئٹہ نائن: بی این پی مینگل کے نصیر احمد شاہوانی
پی بی 33، نوشکی: بی این پی کے محمد رحیم
پی بی 34، چاغی: آزاد امیدوار عارف محمد حسنی
پی بی 35، مستونگ: امیدوار کے قتل کے باعث انتخابات ملتوی ہو گئے.
پی بی 36، شہید سکندرآباد: آزاد امیدوار میر نعمت اللہ زہری
پی بی 37، قلات: بی اے پی کے میر ضیا لانگو
پی بی 38، خضدار ون: مسلم لیگ ن کے سردار ثنا اللہ زہری
پی بی 39، خضدار ٹو: ایم ایم اے کے میر یونس عزیز زہری
پی بی 40، خضدار تھری: بی این پی مینگل کےسردار اختر جان مینگل
پی بی 41، واشک: ایم ایم اے کے زاہد علی
پی بی 42، خاران: بی این پی (مینگل) کے ثنااللہ بلوچ
پی بی 43، پنجگور: بی این پی (عوامی) کے میر اسد اللہ بلوچ
پی بی 44، آوارن کم پنجگور: بی اے پی کے میر عبدالقدوس بزنجو
پی بی 45، کیچ ون: بی اے پی کے ظہور بلیدی
پی بی 46، کیچ ٹو: بی این پی عوامی کے سید احسان شاہ
پی بی 47، کیچ تھری: بی اے پی کے عبدالرؤف رند پ
پی بی 48، کیچ فور: بی اے پی کے اکبر آسکانی
پی بی 49، لسبیلہ ون: بی اے پی کے محمد صالح بھوتانی
پی بی 50، لسبیلہ ٹو: بی اے پی کے جام کمال خان
پی بی51، گوادر: بی این پی کے میر حمل کلمتی

ان تمام ناموں سے اس وقت وزیراعلیٰ بلوچستان کے لیے صرف تین نام سامنے آئے ہیں جس میں بی اے پی کے جام کمال، بی این پی کے سردار اختر مینگل اور پی ٹی آئی کے سردار یار محمد رند شامل ہیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی اس وقت چودہ نشستوں کے ساتھ صوبے میں سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے، سردار اختر مینگل کی بی این پی گو کہ عددی لحاظ سے تیسری جماعت ہے لیکن انہیں صوبائی و ملکی سطح پر وزیراعلیٰ بلوچستان کےلیے فیورٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس مرتبہ ایم ایم اے بلوچستان میں ایک بار پھر حکومت سازی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

پی ٹی آئی صوبے میں صرف چار سیٹیں رکھتی ہے لیکن مرکز میں حکومت کے بعد وہ اس پوزیشن میں ہے کہ صوبے میں‌ بارگیننگ کے ذریعے اپنا وزیراعلیٰ لا سکے۔ لگتا ہے پچھلی حکومت کی طرح مری معاہدہ ہونے کا امکان ہے جس کی طرز پر ڈھائی سالہ حکومت قائم ہو سکتی ہے اور نیا ڈھائی سالہ وزیراعلی جنم لے سکتا ہے جس طرح پچھلی بار ڈھائی سال نیشنل پارٹی نے حکمرانی کے مزے لیے اور ڈھائی سال تک ن لیگ نے حکمرانی کے مزے لینے کا عزم کیا، مگر آخری تین ماہ مسلم لیگ قاف کے کھاتے میں چلے گئے؛ اس طرح بلوچستان میں پانچ سال حکمرانی ہوتی رہی۔

سوال یہ ہے کہ کیا نئے وزیراعلیٰ بلوچستان کے انتخاب کے بعد لوڈشیڈنگ کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا؟ کیا بلوچستان میں ترقیاتی کام عروج پہ پہنچ جائیں گے؟ کیا روڈ راستوں نالیوں گلیوں کی تعمیر کے ساتھ محکمہ تعلیم و صحت کےلئےانقلابی اقدامات کیے جائیں گے؟ کیا انصاف عوام کی دہلیز پہ ملنےلگے گا؟ کیا پولیس میں رشوت لینا اور پٹواریوں کا پیسے بٹورنا بند کردیا جائے گا؟ کیا دہشت گردی ختم ہو جائے گی؟ کیا امن و امان کا بول بالا ہو جائے گا؟ کیا مہنگائی کا خاتمہ ہوجائے گا؟ کیا کرپشن و کمیشن کا خاتمہ ہوگا؟ کیا پانی کی چوری بند ہوجائے گی؟ کیا عوام کو پینے کا صاف پانی اور گیس گھرگھر میسر ہوگا؟

یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان سب سوالات کے جوابات کسی کے پاس بھی نہیں، نہ نئے آنے والے وزیراعلیٰ کے پاس، نہ عوام کے پاس